شمالی کوریا کے خلاف امریکی پابندیاں بڑھائے جانے پر پیونگ یانگ کا ردعمل
اس بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امریکہ کی یہ غلط فہمی ہے جو وہ سمجھتا ہے کہ شمالی کوریا کے خلاف پابندیاں بڑھائے جانے سے پیونگ یانگ کو ایٹمی ہتھیار بنانے اور ان ہتھیاروں کی حفاظت کرنے سے روکا جا سکتا ہے۔
امریکہ ایسی حالت میں شمالی کوریا کے خلاف پابندیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے کہ پیونگ یانگ کو جوہری و میزائل پروگرام سے دستبرداری پر مجبور کرنے کے لئے حالیہ برسوں کے دوران امریکہ کے تمام تر حربے اور ہتھکنڈے ناکام ہو جانے کے بعد امریکی صدر ٹرمپ، سنگاپور میں شمالی کوریا کے رہنما کیم جونگ اون سے ملاقات پر مجبور ہو گئے تھے۔
اس ملاقات کے بعد نہ صرف پیونگ یانگ بلکہ تمام عالمی حلقے پرامید تھے کہ واشنگٹن، شمالی کوریا کے بارے میں ماضی کی اپنی تمام ناکامیوں سے درس حاصل کرتے ہوئے اپنا رویہ تبدیل اور مذاکرات کا راستہ اختیار کرے گا تاکہ جزیرہ نمائے کوریا کے حالات میں تبدیلی پیدا کر کے امن و سلامتی کا عمل آگے بڑھایا جا سکے۔
اگرچہ شمالی کوریا نے بھی جزیرہ نمائے کوریا میں حالات کو معمول پر لانے کے لئے علاقے کو جوہری ہتھیاروں سے عاری کئے جانے سے اتفاق کرتے ہوئے آگے کی جانب قدم بڑھایا مگر واشنگٹن اس بات کی کوشش کر رہا ہے کہ ایک جانب امریکی مطالبات منوانے کے لئے شمالی کوریا کے خلاف پابندیوں کا سلسلہ بڑھاتا رہے اور دوسری جانب جزیرہ نمائے کوریا کے بحران کے حل کے سلسلے میں ہر عمل کو اپنے ہاتھ میں رکھے۔
چنانچہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شمالی کوریا نے اپنا آپشن بی مدنظر رکھا ہے اور وہ بھی جزیرہ نمائے کوریا کے بحران کے حل کے بارے میں واشنگٹن کی کارکردگی کے مقابلے میں اپنی خواہشات و مطالبات کے مطابق آگے بڑھانا چاہتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ شمالی کوریا نے بھی امریکہ پر پیونگ یانگ کے خلاف دشمنانہ پالیسیاں جاری رکھنے کا الزام عائد کرتے ہوئے تاکید کے ساتھ اعلان کیا ہے کہ پابندیاں جاری رکھ کر جزیرہ نمائے کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک اور امن کی بحالی میں کامیاب نہیں ہوا جا سکتا اور امریکی اقدامات سے علاقے میں امن کی بحالی تو کیا صورت حال مزید ابتر ہو سکتی ہے۔
No comments
Thnak For FeedBack!!!